(ایجنسیز)
تیونس کی قومی اسمبلی نے نئے دستور کی تمام شقوں پر بحث کے بعد نئے دستور کی منظوری دے دی ہے۔ قومی اسمبلی کے منتخب ارکان نے نئے دستور کی منظوری سابق آمر زین العابدین بن علی کی حکومت کے خاتمہ کے تین سال بعد دی ہے تاکہ ملک کو ٹھیک جمہوری سمت دی جا سکے۔
نئے دستور کی شق وار بحث کے بعد دی گئی منظوری کے بعد حتمی منظوری کے لیے اب پورے آئین کو اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد نیا آئِن باضابطہ طور پر ملک میں نافذ کیے جانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
آئین کی حتمی منظوری کے بعد تیونس کو یہ اعزاز حاصل ہو گا کہ 2011 کی عرب بہاریہ کے نتیجے میں مصر کے بعد پہلا ملک ہو گا جسکی منتخب قیادت اتفاق رائے سے آئین کی تیاری میں کامیاب رہی۔ س سے پہلے مصر کی منتخب پارلیمنٹ نے 2012 میں نئے دستور کی منظوی دی تھی۔
تاہم فوج کے ہاتھوں منتخب صدر کی برطرفی کے بعد منتخب پارلیمنٹ کے منظور کردہ آئین کی جگہ 50 نامزد ماہرین کی مدد سے ایک نیا آئین تیار کیا جس کے لیے 15 اور 16 جنوی کو ریفرنڈم کرایا گیا ہے ۔ لیکن اخوان المسلمون اور اس کی اتحادی
جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث یہ ریفرنڈم مغربی اور جمہوریت پسند ملکوں میں متنازعہ خیال کیا جا رہا ہے۔
تیونس کی قومی اسمبلی میں آئین کی شق وار منظوری کے بعد قومی ترانہ پڑھ کر ملکی سلامتی، استحکام اور عوام کی خوشحالی و ترقی کیلیے دعا کی گئی۔ اسمبلی کے سپیکر مصطفی بن جعفر نے اس لمحے کا تریخی قرار دیا کہ عوامی نمائندوں نے عوامی امنگوں کے مطابق ملک کو آئینی حکمرانی کی راہ پر ڈال دیا۔
سپیکر کا کہنا تھا '' بالآخر ہم نے اس لمحے کو پالیا '' دستور کی منظوری کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ تیونس جمہوری اور آئینی حکمرانی کے قریب ترین ہو جانے والے عرب ملک کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ واضح رہے تیونس کی اسلام پسند حکومت اور سیکولر اپوزیشن نے حال ہی میں باہمی اتفاق رائے سے نئے انتخابات سے پہلے عبوری حکومت قائم کرنے کیلیے پیش رفت کی ہے، تاہم منتخب اسبلی اپنی جگہ کام کر رہی ہے۔
تیونس ایک عرب افریقی ملک ہے جہاں انتقال اقتدار کے لیے تصادم کے راستے کے بجائے اسلام پسند حکومت نے اپنی اپوزیشن کے ساتھ مل کر ملک امن و آتشی کے ساتھ جمہوریت کی طرف بڑاھانے کی کوشش کی ہے۔